"کیمیائے سعادت" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی اقتباس سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
مکوئی خلاصۂ ترمیم نہیں
 
سطر 1: سطر 1:
'''کیمیائے سعادت''' [[امام غزالی]] کی شاہکار تصنیف ہے جو بارہویں صدی عیسوی کے اوائل عشروں میں لکھی گئی تھی۔
'''کیمیائے سعادت''' [[امام غزالی]] کی شاہکار تصنیف ہے جو بارہویں صدی عیسوی کے اوائل عشروں میں لکھی گئی تھی۔
==اقتباسات==
==اقتباسات==
*گزشتہ انبیاء کی کتب میں مذکور تھا کہ اُن سے اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اُس نے اپنے [[رب]] کو پہچان لیا۔‘‘ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کا دِل آئینے کی طرح ہے۔ جو کوئی اِس میں غور کرے گا، خدا کو دیکھے گا، اور بہت سے لوگ اپنے میں غور کرتے ہیں مگر خدا کو نہیں پہچانتے۔ تو جس اعتبار سے دِل کی معرفت کا آئینہ ہے، اُس لحاظ سے دِل کو جاننا ضروری ہے۔
*گزشتہ انبیاء کی کتب میں مذکور تھا کہ اُن سے اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے [[نفس]] کو پہچان لیا، اُس نے اپنے [[رب]] کو پہچان لیا۔‘‘ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کا دِل آئینے کی طرح ہے۔ جو کوئی اِس میں غور کرے گا، خدا کو دیکھے گا، اور بہت سے [[انسان|لوگ]] اپنے میں غور کرتے ہیں مگر خدا کو نہیں پہچانتے۔ تو جس [[اعتبار]] سے دِل کی معرفت کا آئینہ ہے، اُس لحاظ سے دِل کو جاننا ضروری ہے۔
**باب اول: معرفت الٰہی، صفحہ 59۔
**باب اول: معرفت الٰہی، صفحہ 59۔



حالیہ نسخہ بمطابق 18:54، 3 جون 2020ء

کیمیائے سعادت امام غزالی کی شاہکار تصنیف ہے جو بارہویں صدی عیسوی کے اوائل عشروں میں لکھی گئی تھی۔

اقتباسات[ترمیم]

  • گزشتہ انبیاء کی کتب میں مذکور تھا کہ اُن سے اللہ تعالیٰ نے یوں ارشاد فرمایا: ’’جس نے اپنے نفس کو پہچان لیا، اُس نے اپنے رب کو پہچان لیا۔‘‘ اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ آدمی کا دِل آئینے کی طرح ہے۔ جو کوئی اِس میں غور کرے گا، خدا کو دیکھے گا، اور بہت سے لوگ اپنے میں غور کرتے ہیں مگر خدا کو نہیں پہچانتے۔ تو جس اعتبار سے دِل کی معرفت کا آئینہ ہے، اُس لحاظ سے دِل کو جاننا ضروری ہے۔
    • باب اول: معرفت الٰہی، صفحہ 59۔

مزید پڑھیں[ترمیم]

مزید دیکھیں[ترمیم]

ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں کیمیائے سعادت.