"قائداعظم محمد علی جناح" کے نسخوں کے درمیان فرق

ویکی اقتباس سے
حذف شدہ مندرجات اضافہ شدہ مندرجات
سطر 49: سطر 49:


==15 جون 1948ء==
==15 جون 1948ء==
*کمزور سہاروں سے چمٹے رہنا بہت بڑی غلطی ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ آپ بالکل نئی اور نوزائیدہ مملکت زبردست اور بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل میں گھری ہوئی ہے، ایسے موقع پر مملکت کے وسیع تر مفاد کو صوبائی یا مقامی یا ذاتی مفاد کے تابع کرنے کا ایک ہی مطلب ہے۔۔۔ خودکشی !
*کمزور سہاروں سے چمٹے رہنا بہت بڑی غلطی ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ آپ ایک نئی اور نوزائیدہ مملکت زبردست اور بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل میں گھری ہوئے ہیں، ایسے موقع پر مملکت کے وسیع تر مفاد کو صوبائی یا مقامی یا ذاتی مفاد کے تابع کرنے کا ایک ہی مطلب ہے۔۔۔ خودکشی !
([[کوئٹہ]] میونسپلٹی کی استقبالیہ تقریب سے خطاب، 15 جون 1948ء)
([[کوئٹہ]] میونسپلٹی کی استقبالیہ تقریب سے خطاب، 15 جون 1948ء)

==14 اگست 1948ء==
==14 اگست 1948ء==
*قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اِس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے۔
*قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اِس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے۔

نسخہ بمطابق 07:19، 23 مئی 2017ء

میرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو دیانتداری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔ (27 اگست 1947ء)

قائداعظم محمد علی جناح (پیدائش: 25 دسمبر 1876ء– وفات: 11 ستمبر 1948ء) آزادی پاکستان کے اہم رہنماء اور پاکستان کے بانی تھے۔ بیسویں صدی عیسوی میں وہ برصغیر میں مسلمانوں کے عظیم ترین رہنماء تسلیم کیے جاتے تھے۔ پیشے کے اعتبار سے وہ وکیل تھے۔ 14 اگست 1947ء کو پاکستان کی آزادی کے بعد پہلے گورنر جنرل مقرر ہوئے اور اپنی وفات تک اِس عہدے پر فائز رہے۔ 11 ستمبر 1948ء کو کراچی میں انتقال کرگئے اور موجودہ مزار قائد کے احاطہ میں تدفین کی گئی۔ عوام میں اُن کی تقاریر اکثر انگریزی زبان میں ہوا کرتی تھیں، بعد ازاں اردو زبان میں بھی اُن کی تقاریر عوامی دلچسپی کا باعث بنیں۔اُنہیں قائداعظم، بابائے قوم کے القابات سے یاد کیا جاتا ہے۔

اقتباسات

  • کفایت شعاری قومی فریضہ ہے۔
  • مساوات اور اخوت ہو تو جمہوریت بنتی ہے۔
  • برداشت کے سچے جذبات کا مظاہرہ کریں۔
  • مسلمان کے لیے اس سے بہتر اور کوئی ذریعہ نہیں ہو سکتا کہ وہ صداقت کی خاطر شہید کی موت مر جائے۔
  • پاکستان کی قومی زبان اردو ہو گی،صرف اردو ہو گی۔
  • ہمیں پنجابی،سندھی،بلوچی بن کر نہیں سوچنا چاہیے،بلکہ ہمیں پاکستانی بن کر سوچنا ہے۔
  • ایک فیصلہ لینے سے پہلے سو بار سوچا کرو، مگر جب فیصلہ لے لو تو اس پہ ایک مرد کے طرح قائم رہو۔

19 اکتوبر 1938ء

  • اگر مسلمانوں کو اپنے عزائم اور مقاصد میں ناکامی ہوگی تو مسلمانوں ہی کی دغا بازی کے باعث ہوگی، جیسا کہ گزشتہ زمانے میں ہوچکا ہے۔ میں دغا بازوں کا ذکر کرنا پسند نہیں کرتا، لیکن ہر انساف پسند اور سچے مسلمان سے میری درخواست ہے کہ اپنی جماعت کی فلاح و بہبود کی غرض سے متحد و متفق ہوکر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم پر آکر اُس کے پرچم کے نیچے کام شروع کردے۔

(سندھ مسلم لیگ کانفرنس کراچی سے خطاب، 19 اکتوبر 1938ء)

21 اکتوبر 1939ء

  • میری زِندگی کی واحد تمناء یہ ہے کہ مسلمانوں کو آزاد و سربلند دیکھوں۔ میں چاہتا ہوں کہ جب مروں تو یہ یقین اور اِطمینان لے کر مروں کہ میرا ضمیر اور میرا خدا گواہی دے رہا ہو کہ جناح نے اسلام سے خیانت اور غداری نہیں کی اور مسلمانوں کی آزادی، تنظیم اور مدافعت میں اپنا فرض اداء کردیا۔

(آل انڈیا مسلم لیگ کونسل سے خطاب، 21 اکتوبر 1939ء)

23 مارچ 1940ء

  • اپنی تنظیم اِس طور پر کیجئیے کہ کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت نہ رہے۔ یہی آپ کا واحد اور بہترین تحفظ ہے۔ اِس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم کسی کے خلاف بدخواہی یا عناد رکھیں۔ اپنے حقوق اور مفاد کے تحفظ کے لیے وہ طاقت پیدا کر لیجئے کہ آپ اپنی مدافعت کرسکیں۔(مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ لاہور سے خطاب، 23 مارچ 1940ء)

2 نومبر 1940ء

  • چھوت چھات صرف ہندو مذہب اور فلسفے میں جائز ہے۔ ہمارے ہاں ایسی کوئی بات نہیں۔ اسلام انصاف، مساوات، معقولیت اور رواداری کا حامل ہے، بلکہ جو غیر مسلم ہماری حفاظت میں آ جائیں، اُن کے ساتھ فیاضی کو بھی رواء رکھتا ہے۔ یہ لوگ ہمارے بھائی ہیں اور اِس ریاست میں وہ شہریوں کی طرح رہیں گے۔

(مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء سے خطاب، 2 نومبر 1940ء)

6 مارچ 1941ء

  • اقبال نے آپ کے سامنے ایک واضح اور صحیح راستہ رکھ دیا ہے جس سے بہتر کوئی دوسرا راستہ نہیں ہوسکتا۔ وہ دورِ حاضر میں اسلام کے بہترین شارح تھے کیونکہ اِس زمانے میں اقبال سے بہتر اسلام کو کسی نے نہیں سمجھا۔ مجھے اِس کا فخر حاصل ہے کہ آپ کی قیادت میں ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ میں نے اُس سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔

(ہفت روز حمایتِ اسلام، لاہور، 6 مارچ 1941ء)

21 نومبر 1945ء

  • میں ایک بار پھر اپیل کروں گا کہ جن لوگوں کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے مسلم بورڈ کی طرف سے ٹکٹ نہیں ملے، اگر اُنہوں نے دس کروڑ مسلمانوں سے غداری کی تو وہ خود بھی وزیراعظم یا وزیر بننے کے لیے زندہ نہ رہ سکیں گے۔

(مسلم لیگ کانفرنس معنقدہ پشاور سے خطاب، 21 نومبر 1945ء)

17 اپریل 1946ء

  • ہماری یہ منشاء نہیں ہے کہ پاکستان کے قیام کے ساتھ ساتھ اختلافات اور جھگڑے شروع ہو جائیں۔ ہمارے سامنے بہت کام ہوں گے۔ اِسی طرح (ہندو) برادرانِ وطن کو اپنی مملکت میں بہت سے کام کرنے ہوں گے۔ لیکن وہ اہماری اقلیتوں کے ساتھ بدسلوکی شروع کردیتے ہیں اور اُن کو ستاتے ہیں تو پاکستان ایک خاموش تماشائی نہ بنے گا۔ اگر گلیڈسٹون کے زمانے میں برطانیہ اقلیتوں کے تحفظ کے نام پر امریکہ میں مداخلت کرسکتا تھا تو اگر ہندوستان میں ہماری اقلیتوں پر مظالم کیے گئے تو ہمارا مداخلت کرنا کیونکر حق بجانب نہ ہوگا؟

(مسلم لیگ کنونشن دہلی سے خطاب، 17 اپریل 1946ء)

27 اگست 1947ء

  • میرے پیغام کا خلاصہ یہ ہے کہ ہر مسلمان کو دیانتداری، خلوص اور بے غرضی سے پاکستان کی خدمت کرنی چاہیے۔

(27 اگست 1947ء)

24 اکتوبر 1947ء

  • ہم جتنی زیادہ تکلیفیں سہنا اور قربانیاں دینا سیکھیں گے، اُتنی ہی زیادہ پاکیزہ، خالص اور مضبوط قوم کی حیثیت سے اُبھریں گے، جیسے سونا آگ میں تپ کر کندن بن جاتا ہے۔

(24 اکتوبر 1947ء کو عید الاضحیٰ کے موقع پر قوم سے خطاب)

21 مارچ 1948ء

  • حکومت کے سامنے صرف ایک ہی مقصد ہوسکتا ہے، عوام کی بے لوث خدمت، اُن کی فلاح و بہبود کے لیے مناسب تدابیر اختیار کرنا، اِس کے سواء برسراقتدار حکومت کا مقصد کیا ہوسکتا ہے؟۔ اور اگر اِس کے علاوہ کوئی اور مقصد سامنے ہے تو ایسی حکومت کو اقتدار سے الگ کردو، لیکن ہلڑبازی سے نہیں۔ اقتدار آپ کے پاس ہے اور یہ آپ کی چیز ہے۔ آپ کو اِسے استعمال کرنے کا فن بھی آنا چاہیے۔ آپ کو سیاسی نطام کے اسرار و رموز اور طریق کار بھی سیکھنے چاہئیں۔

(ڈھاکہ میں جلسہ عام سے خطاب، 21 مارچ 1948ء)

26 مارچ 1948ء

  • آزادی کا مطلب بے لگام ہوجانا نہیں ہے۔ آزادی کا مفہوم یہ نہیں ہے کہ دوسرے لوگوں اور مملکت کے مفادات کو نظرانداز کرکے آپ جو چاہیں، کر گزریں۔ آپ پر بہت بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور پہلے سے کہیں زیادہ۔ اب یہ ضروری ہے کہ آپ ایک منظم و منضبط قوم کی طرح کام کریں۔ اِس وقت ہم سب کو چاہیے کہ تعمیری جذبہ پیدا کریں۔ جنگ آزادی کے دِنوں کی جنگجوئی کی اب ضرورت نہیں رہی۔ آزادی حاصل کرنے کے لیے جنگجویانہ جذبات اور جوش و خروش کا مظاہرہ آسان ہے اور ملک و ملت کی تعمیر کہیں زیادہ مشکل۔

(ڈھاکہ یونیورسٹی میں خطاب۔ 26 مارچ 1948ء)

15 جون 1948ء

  • کمزور سہاروں سے چمٹے رہنا بہت بڑی غلطی ہے، خاص طور پر ایسی صورت میں کہ آپ ایک نئی اور نوزائیدہ مملکت زبردست اور بے شمار اندرونی و بیرونی مسائل میں گھری ہوئے ہیں، ایسے موقع پر مملکت کے وسیع تر مفاد کو صوبائی یا مقامی یا ذاتی مفاد کے تابع کرنے کا ایک ہی مطلب ہے۔۔۔ خودکشی !

(کوئٹہ میونسپلٹی کی استقبالیہ تقریب سے خطاب، 15 جون 1948ء)

14 اگست 1948ء

  • قدرت نے آپ کو ہر نعمت سے نوازا ہے۔ آپ کے پاس لامحدود وسائل موجود ہیں۔ آپ کی ریاست کی بنیادیں مضبوطی سے رکھ دی گئی ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ نہ صرف اِس کی تعمیر کریں بلکہ جلد از جلد اور عمدہ سے عمدہ تعمیر کریں۔ سو آگے بڑھیے اور بڑھتے ہی جائیے۔

(14 اگست 1948ء کو آزادی پاکستان کی پہلی سالگرہ پر قوم سے خطاب)

معاصرین کی نظر میں

حوالہ جات