"ابن خلدون" کے نسخوں کے درمیان فرق
کوئی خلاصۂ ترمیم نہیں |
|||
سطر 1: | سطر 1: | ||
[[File:Ibn khaldoun-kassus.jpg|thumb|تونس میں ابن خلدون کا مجسمہ]] |
[[File:Ibn khaldoun-kassus.jpg|thumb|تونس میں ابن خلدون کا مجسمہ]] |
||
'''ابن خلدون''' (پیدائش: 27 مئی 1332ء – وفات: 19 مارچ 1406ء) سیاستدان، مؤرخ، فقیہ اور فلسفی تھے۔ |
'''ابن خلدون''' ([[پیدائش]]: 27 [[مئی]] 1332ء – [[وفات]]: 19 مارچ 1406ء) سیاستدان، مؤرخ، فقیہ اور فلسفی تھے۔ |
||
[[File:Ibn Khaldoun Statue and Square, Mohandesin, Cairo.jpg|thumb| |
[[File:Ibn Khaldoun Statue and Square, Mohandesin, Cairo.jpg|thumb|[[قاہرہ]]، [[مصر]] میں ابن خلدون کا نصب شدہ [[مجسمہ]]]] |
||
==علم تاریخ کی اہمیت== |
==علم تاریخ کی اہمیت== |
||
علم تاریخ ایک معزز و بلند پایہ، بہت فائدہ مند اور شریف غرض و غایت کا فن ہے، کیونکہ یہ ہمیں گزشتہ اَقوام کے اخلاق و احوال بتاتا ہے۔ انبیاء کی سیرتوں سے آگاہ کرتا ہے اور حکومتوں اور سیاست میں سلاطین کے حالات کی خبر دیتا ہے، تاکہ اگر کوئی کسی دِینی یا دُنیوں سلسلے میں اِن میں سے کسی کے نقشِ قدم پر چلنا چاہے تو اُسے پورا پورا استفادہ ہو۔<ref>مقدمہ ابن خلدون: جلد 1، صفحہ 117۔</ref> |
علم [[تاریخ]] ایک معزز و بلند پایہ، بہت فائدہ مند اور [[شریف]] غرض و غایت کا [[فن]] ہے، کیونکہ یہ ہمیں گزشتہ اَقوام کے اخلاق و احوال بتاتا ہے۔ انبیاء کی سیرتوں سے آگاہ کرتا ہے اور حکومتوں اور [[سیاست]] میں سلاطین کے حالات کی خبر دیتا ہے، تاکہ اگر کوئی کسی دِینی یا دُنیوں سلسلے میں اِن میں سے کسی کے نقشِ قدم پر چلنا چاہے تو اُسے پورا پورا استفادہ ہو۔<ref>مقدمہ ابن خلدون: جلد 1، صفحہ 117۔</ref> |
||
==تاریخ عوامی مقاصد و فنون کی حامل== |
==تاریخ عوامی مقاصد و فنون کی حامل== |
||
تاریخ عوام کے مقاصد و فنون میں سے سمجھی جاتی ہے، اِن حالات میں ایک مؤرخ کو قواعدِ سیاست اور طبائع موجودات کی آگاہی اِنتہائی ضروری ہے اور عادات و اخلاق میں، اقوال و مذاہب میں اور شمائل و سِیَر میں مختلف اقوام کا مختلف مقامات کا اور مختلف زمانوں کا خیال رکھنا بھی اِنتہائی اہم ہے۔ <ref>مقدمہ ابن خلدون: جلد 1، صفحہ 137۔</ref> |
تاریخ عوام کے مقاصد و فنون میں سے سمجھی جاتی ہے، اِن حالات میں ایک مؤرخ کو قواعدِ سیاست اور طبائع موجودات کی آگاہی اِنتہائی ضروری ہے اور عادات و اخلاق میں، اقوال و مذاہب میں اور شمائل و سِیَر میں مختلف اقوام کا مختلف مقامات کا اور مختلف زمانوں کا خیال رکھنا بھی اِنتہائی اہم ہے۔ <ref>مقدمہ ابن خلدون: جلد 1، صفحہ 137۔</ref> |
||
==ہر زمانے میں اقوام کے حالات مختلف ہوتے ہیں== |
==ہر زمانے میں اقوام کے حالات مختلف ہوتے ہیں== |
||
بدلتے ہوئے زمانوں میں اقوامِ عالم کے حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور اُن کے اخلاق و عادات، طور طریقے اور تہذیب و تمدن ایک حالت پر اور ایک راہ پر باقی نہین رہتے، بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ پھر جس طرح یہ تغیرات لوگوں میں اوقات میں اور شہروں میں رونماء ہوتے ہیں۔ اِسی طرح دنیاء کے ہر گوشے میں، ہر زمانے میں اور ہر حکومت میں بھی رونماء ہوتے ہیں۔<ref>مقدمہ ابن خلدون: جلد 1، صفحہ 138۔</ref> |
بدلتے ہوئے زمانوں میں اقوامِ عالم کے حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور اُن کے [[اخلاق]] و عادات، طور طریقے اور [[تہذیب]] و تمدن ایک حالت پر اور ایک راہ پر باقی نہین رہتے، بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ پھر جس طرح یہ تغیرات لوگوں میں اوقات میں اور شہروں میں رونماء ہوتے ہیں۔ اِسی طرح دنیاء کے ہر گوشے میں، ہر زمانے میں اور ہر حکومت میں بھی رونماء ہوتے ہیں۔<ref>مقدمہ ابن خلدون: جلد 1، صفحہ 138۔</ref> |
||
== مزید |
== مزید دیکھیے == |
||
{{wikipedia}} |
{{wikipedia}} |
||
نسخہ بمطابق 18:20، 6 جون 2017ء
ابن خلدون (پیدائش: 27 مئی 1332ء – وفات: 19 مارچ 1406ء) سیاستدان، مؤرخ، فقیہ اور فلسفی تھے۔
علم تاریخ کی اہمیت
علم تاریخ ایک معزز و بلند پایہ، بہت فائدہ مند اور شریف غرض و غایت کا فن ہے، کیونکہ یہ ہمیں گزشتہ اَقوام کے اخلاق و احوال بتاتا ہے۔ انبیاء کی سیرتوں سے آگاہ کرتا ہے اور حکومتوں اور سیاست میں سلاطین کے حالات کی خبر دیتا ہے، تاکہ اگر کوئی کسی دِینی یا دُنیوں سلسلے میں اِن میں سے کسی کے نقشِ قدم پر چلنا چاہے تو اُسے پورا پورا استفادہ ہو۔[1]
تاریخ عوامی مقاصد و فنون کی حامل
تاریخ عوام کے مقاصد و فنون میں سے سمجھی جاتی ہے، اِن حالات میں ایک مؤرخ کو قواعدِ سیاست اور طبائع موجودات کی آگاہی اِنتہائی ضروری ہے اور عادات و اخلاق میں، اقوال و مذاہب میں اور شمائل و سِیَر میں مختلف اقوام کا مختلف مقامات کا اور مختلف زمانوں کا خیال رکھنا بھی اِنتہائی اہم ہے۔ [2]
ہر زمانے میں اقوام کے حالات مختلف ہوتے ہیں
بدلتے ہوئے زمانوں میں اقوامِ عالم کے حالات بھی بدلتے رہتے ہیں اور اُن کے اخلاق و عادات، طور طریقے اور تہذیب و تمدن ایک حالت پر اور ایک راہ پر باقی نہین رہتے، بلکہ زمانے کے ساتھ ساتھ بدلتے رہتے ہیں۔ پھر جس طرح یہ تغیرات لوگوں میں اوقات میں اور شہروں میں رونماء ہوتے ہیں۔ اِسی طرح دنیاء کے ہر گوشے میں، ہر زمانے میں اور ہر حکومت میں بھی رونماء ہوتے ہیں۔[3]