عائشہ بنت ابی بکر

ویکی اقتباس سے

سیدہ عائشہ بنت ابی بکر (پیدائش: 614ء– وفات: 13 جولائی 678ء) محمد بن عبد اللہ کی زوجہ ہیں۔ آپ کا خطاب اُم المومنین ہے۔

پہلی روایت[ترمیم]

قاسم بن محمد بن ابی بکر  (جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے ہیں) بیان کرتے ہیں کہ: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:  مجھے ازواج المطہرات پر دس وجوہات سے فضیلت حاصل ہے۔ پوچھا گیا:  اُم المومنین وہ دس وجوہات کیا ہیں؟ آپ نے فرمایا:

  • نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے سواء کسی کنواری عورت سے نکاح نہیں کیا۔[1]
  • میرے سواء کسی ایسی خاتون سے نکاح نہیں کیا جس کے والدین مہاجر ہوں۔
  • اللہ تعالیٰ نے آسمان سے میری براءت نازل فرمائی۔
  • نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبرئیل امین علیہ السلام ایک ریشمی کپڑے میں میری تصویر لائے اور فرمایا: اِن سے نکاح کرلیجئیے، یہ آپ کی اہلیہ ہیں۔
  • میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن سے نہایا کرتے تھے۔[2]
  • میرے سواء اِس طرح آپ اپنی کسی اور بیوی کے ساتھ غسل نہیں کیا کرتے تھے۔
  • آپ میرے پاس ہوتے تو وحی آ جایا کرتی تھی اور اگر کسی اور بیوی کے پاس ہوتے تو وحی نہیں آیا کرتی تھی۔
  • نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات میرے گلے اور سینہ کے درمیان میں ہوئی  (جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ کا سر اقدس صدیقہ رضی اللہ عنہ کی رانِ مبارک اور زانوئے مبارک کے درمیان میں تھا)۔
  • نبی صلی اللہ علیہ وسلم میری باری کے دن فوت ہوئے (یعنی جب میرے یہاں مقیم تھے)۔
  • نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے حجرے میں مدفون ہوئے۔[3]

دوسری روایت[ترمیم]

دوسری روایت میں ہے کہ تابعی عمیر نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے سنا، آپ فرماتی ہیں کہ: مجھے چند چیزیں حاصل ہیں جو کسی عورت کو حاصل نہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے وقت میری عمر سات سال تھی، آپ کے پاس فرشتہ اپنے ہاتھ میں میری تصویر لے کر آیا اور آپ نے میری تصویر دیکھی، رخصتی کے وقت میں نو سال کی تھی، میں نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو دیکھا، اُنہیں میرے سواء کسی عورت نے نہیں دیکھا، میں آپ کی سب سے زیادہ چہیتی تھی، میرے والد آپ کو سب سے زیادہ محبوب تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے گھر میں مرض الموت کے ایام گزارے اور میں نے آپ کی تیمارداری کی پھر جب آپ نے وفات پائی تو آپ کے پاس صرف میں اور فرشتے تھے، کوئی اور نہ تھا۔[4]

فضائل و مناقب[ترمیم]

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  عائشہ جنت میں بھی میری بیوی ہوں گی۔[5]
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " عورتوں پر عائشہ (رضی اللہ عنہا) کی فضیلت ایسی ہے جیسے تمام کھانوں پر ثرید کو فضیلت حاصل ہے۔[5]
  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  مجھے جنت میں عائشہ دکھائی گئیں تاکہ مجھ پر موت آسان ہو جائے، گویا میں اُن کے دونوں ہاتھ دیکھ رہا ہوں۔[5]
  • ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: یا رسول اللہ!   جنت میں آپ کی بیویاں کون ہیں؟  فرمایا:  اُن میں سے ایک تم بھی ہو۔[5]

زیارت حضرت جبرائیل علیہ السلام[ترمیم]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان فرمایا کہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:  اے عائشہ! یہ جبرائیل  (علیہ السلام) ہیں اور تمہیں سلام کہتے ہیں۔ میں نے جواب دیا: اُن پر بھی سلام ہو اور اللہ کی رحمت و برکات ہوں۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم جو کچھ دیکھ سکتے ہیں، وہ میں نہیں دیکھ سکتی۔[6][7][8][9][10][11][12][13][14][15][16][17][18][19][20][21]

  • آپ فرماتی ہیں کہ: میں انے اپنے اِس حجرے کے دروازے پر حضرت جبرئیل امین علیہ السلام کو گھوڑے پر سوار دیکھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ سے چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے، پھر جب آپ اندر تشریف لائے تو میں نے پوچھا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم! یہ کون تھے جن سے آپ چپکے چپکے باتیں کر رہے تھے؟ فرمایا: کیا تم نے اُنہیں دیکھا تھا؟ میں بولی: جی۔ فرمایا: تم نے اُنہیں کس کے مشابہ پایا؟ میں بولی: دحیہ کلبی کے۔ فرمایا: تم نے فراوانی کے ساتھ خیر دیکھی، وہ جبرئیل علیہ السلام تھے، تھوڑی دیر کے بعد آپ نے فرمایا: عائشہ یہ جبرئیل ہیں، تم کو سلام کہہ رہے ہیں۔ میں بولی: وعلیہ السلام، اللہ تعالیٰ اِس آنے والے کو بہتر صلہ عطاء فرمائے۔[5] دوسری روایت میں ہے کہ آپ فرماتی ہیں کہ: میں نے اُن کو (یعنی حضرت جبرئیل علیہ السلام) کو نہیں دیکھا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم وہ دیکھتے تھے جو میں نہیں دیکھ سکتی تھی۔[22]

کلمات بوقت وفات[ترمیم]

ماہِ رمضان 58ھ/ جولائی 678ء میں علیل ہوگئیں اور چند روز تک علیل رہیں۔ کوئی حال پوچھتا تو فرماتیں: اچھی ہوں۔جب آپ کی وفات کا وقت قریب آیا تو فرمانے لگیں: کاش میں پیدا ہی نہ ہوئی ہوتی، کاش میں ایک درخت ہوتی کہ اللہ کی پاکی میں رطب اللسان رہتی اور پوری طرح سے اپنی ذمہ داری سے سبکدوش ہوجاتی، کاش میں مٹی کا ایک ڈھیلا ہوتی، کاش اللہ تعالیٰ مجھے پیدا نہ فرماتا، کاش میں زمین کی بوٹیوں میں سے کوئی بوٹی ہوتی اور قابل ذکر شے نہ ہوتی۔[5]

  • اسماعیل بن قیس کہتے ہیں کہ بوقت وفات حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے وصیت فرمائی کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی نئی باتیں اِختیار کر لی تھیں، لہٰذا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج المطہرات کے پاس دفن کرنا (یہ آپ نے کسر نفسی میں فرمایا تھا)۔
  • تابعی ابن ابی عتیق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گئے جب کہ وہ علیل تھیں، بولے:  اُم المومنین کسی طبیعت ہے؟  میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، فرمانے لگیں:  اللہ کی قسم  یہ موت ہے۔
  • عبید بن عمیر تابعی کہتے ہیں کہ آپ نے وصیت فرمائی کہ میرے جنازے کے پیچھے آگ لے کر نہ جانا اور میری میت پر سرخ مخملی چادر نہ بچھانا۔

حوالہ جات[ترمیم]

ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں عائشہ بنت ابی بکر.
  1. امام ابن العمرانی: الانباء فی تاریخ الخلفاء، صفحہ 46۔  دار الآفاق العربیہ، قاہرہ، مصر۔ 1419ھ۔
  2. امام احمد بن حنبل: مسند احمد، مسند عائشہ، جلد 11 صفحہ 4، الرقم 24515۔ مطبوعہ لاہور۔
  3. ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 4 جز 8، صفحہ 59، مطبوعہ لاہور۔
  4. ابن سعد: طبقات ابن سعد، جلد 4 جز 8، صفحہ 60، مطبوعہ لاہور۔
  5. 5.0 5.1 5.2 5.3 5.4 5.5 ابن سعد۔ طبقات ابن سعد۔ لاہور۔ صفحہ 55 تا 70 (جلد دوم، حصہ 8)۔
  6. امام بخاری: صحیح بخاری، کتاب فضائل اصحاب النبی، باب 30: باب فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 924،  الرقم الحدیث 3768۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔
  7. امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب بدء الخلق، باب 6: باب ذکر الملائکۃ، صفحہ 796، الرقم الحدیث 3217۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔
  8. امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب الادب، باب 111: باب من دَعا صاحبہ فنَقص من اسمہ حرفاً،  صفحہ 1547،  الرقم الحدیث 6201۔ مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔
  9. امام بخاری: صحیح بخاری،  کتاب الاستئذان، باب 16: باب تسلیم الرجال علی النساء، والنساء علی الرجال،  صفحہ 1559،  الرقم الحدیث 6249۔   مطبوعہ دارابن کثیر، دمشق، شام  1423ھ۔
  10. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6195  مکرر 2447۔
  11. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6196  مکرر 2447۔
  12. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6197  مکرر 2447۔
  13. امام مسلم: صحیح مسلم، کتاب فضائل الصحابہ،  باب 59: باب فی فضل عائشہ رضی اللہ عنہا، صفحہ 1214،  الرقم الحدیث 6198  مکرر 2447۔
  14. امام ترمذی: السنن الترمذی، کتاب الاستئذان، باب 5: باب ما جاء فی تبلیغ السلام،  جلد 3 صفحہ 76، الرقم الحدیث 2693۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1420ھ۔
  15. امام ابوداؤد:  السنن ابوداؤد،  کتاب الادب، باب 166: باب فی الرجل یقول: فلان یقرئک السلام،  جلد 3 صفحہ 284،  الرقم الحدیث 5232۔  مطبوعہ مکتبۃ المعارف، الریاض، سعودی عرب، 1419ھ۔
  16. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4260 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23190۔  مطبوعہ لاہور۔
  17. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4785 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23715۔  مطبوعہ لاہور۔
  18. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4826 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23756۔  مطبوعہ لاہور۔
  19. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5092 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24022۔  مطبوعہ لاہور۔
  20. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5132 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24062۔  مطبوعہ لاہور۔
  21. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 5807 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 24737۔  مطبوعہ لاہور۔
  22. مسند احمد: امام احمد بن حنبل، مسند عائشہ اُم المومنین، جلد 9، الرقم الحدیث 4436 من مسند عائشہ، الرقم الحدیث 23366۔  مطبوعہ لاہور۔