فورایور (ٹی وی سلسلہ)
Appearance
فورایور امریکی ٹیلی ویژن چینل امریکی نشریاتی ادارے سے نشر ہونے والا سلسلے وار ڈراما ہے جس کی نشریات کا آغاز ستمبر 2014ء سے ہوا۔
پہلا دور
[ترمیم]پہلی قسط
[ترمیم]- مورگن: میرا نام ہنری مورگن ہے۔ میری کہانی خاصی طویل ہے۔ یہ تھوڑی غیر معقول محسوس ہوسکتی ہے۔ بلکہ، شاید آپ میرا یقین ہی نہ کریں۔ لیکن میں آپ کو پھر بھی سناؤں گا، کیوں کہ، دیگر تمام باتوں کے علاوہ، میرے پاس بہت اور بہت ہی زیادہ وقت ہے۔
تیسری قسط
[ترمیم]- لوکس: ہمیں کچھ نہیں ملا۔
- مورگن: میں کچھ نہیں پر یقین نہیں رکھتا۔ میں ایک سائنس دان ہوں اور، صاف کہوں تو، متشکک (عام عقائد پر شک کرنے والا)۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہوتا ہے، ہاں اگر آپ کو معلوم ہو کہ کس چیز کو تلاش کرنا ہے۔
پانچویں قسط
[ترمیم]- مورگن: اپنے آپ کو دہرائے جانا تاریخ کا مقدر ہے۔
- ایب: تم جانتے ہو، میں یہ نہیں مانتا۔ میرا مطلب ہے کہ یہ تاریخ نہیں ہے جو اپنے آپ کو دہراتی ہے، بلکہ یہ ہم ہیں جو اسے تبدیل کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔
- مورگن: خوب، تو ہم یہ کیسے کرتے ہیں؟
- ایب: لو، یہ بھلا مجھے کیسے پتا ہوگا؟ میں تو بہ مشکل 70 سال کا ہوں۔
آٹھویں قسط
[ترمیم]- ایب: تلخی کے بغیر شیرینی کہاں مل سکتی ہے۔
- مورگن: اس عورت نے یکے بعد دیگرے تمھارا دل توڑنے کے سوا کچھ نہیں کیا ہے۔
- ایب: تم وہ بندوق والے واقعے کی بات کر رہے ہو؟ وہ نہیں جانتی تھی کہ بندوق بھری ہوئی ہے۔
- مورگن: نہیں، ایب۔ مجھے یہ فکر ہے کہ وہ تمھارا دل توڑے گی۔
- ایب: میری عمر میں؟ مجھے تو بہت خوش قسمت ہونا چاہیے۔ اس سے پتا چلتا ہے کہ یہ (دل) اب تک کام کر رہا ہے۔
- مورگن: سیکس، منشیات، بلندی سے چھلانگ (اسکائے ڈائیونگ)۔ حیرت کی بات ہے کہ وہ کام جو ہم ہیجان خیزی کے لیے کرتے ہیں، تاکہ ہم اپنے آپ کو زندہ محسوس کروا سکیں، وہی کام ہیں جو ہمیں ہلاک کر سکتے ہیں۔ بالکل یہی بات انسانی رشتوں پر بھی صادق آتی ہے۔ وہ لوگ جن سے ہم سب سے زیادہ محبت کرتے ہیں، وہی ہوتے ہیں جو ہمیں سب سے گہرا زخم پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔
- مورگن: ہمیں خطرے سے خبردار کرنے کے لیے ہمارا جسم درد محسوس کرتا ہے۔ لیکن یہ ہمیں ہمارے زندہ ہونے کی یاد بھی دلاتا ہے کہ ہم اب تک محسوس کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ اس (درد) کی طلب کرتے ہیں، جب کہ دیگر لوگ اسے سُن رکھنا پسند کرتے ہیں۔ سکون کی خاطر تنہائی ہمیشہ میرا انتخاب رہی ہے۔ لیکن اگر کچھ محسوس نہ ہونا (بے حسی) ہی ہماری سب سے بڑی تکلیف ہو تو کیا ہو؟ کیا ہو اگر درد بانٹنا ہمیں دوسروں کے ساتھ ملا دے اور ہمیں یاد دلائے کہ جب تک ہمارا احساس باقی ہے، ہم تنہا نہیں ہیں۔
- لوکس: ہنری مورگن اپنے پرانے ساتھیوں کے ساتھ نوش کر رہا ہے؟ کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ میں یہ دن دیکھنے کے لیے زندہ رہوں گا۔
- مورگن: بس، تم (اگر) زیادہ عرصہ زندہ رہو، (تو) کچھ بھی ممکن ہے۔
نویں قسط
[ترمیم]- مورگن: کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم کیسے جیتے یا مرتے ہیں، ہمارا انجام ایک ہی جیسا ہوتا ہے۔۔۔ خاموشی میں۔ ہماری زندگی کی تمام تر اُمیدیں اور سپنے ایک ایسی داستان بن جاتے ہیں جسے مختصر کردیا گیا ہو۔ لیکن اگر ہم خاصے خوش قسمت ہوں، تو ہمارے قصے زندہ رہتے ہیں۔ ہمیں یاد رکھنے اور چاہنے والوں کے دلوں میں ہمارے گیت کو آواز ملتی ہے۔
- مورگن: کہتے ہیں کہ ایک آدمی تب تک نہیں مرتا جب تک اُس کا نام لیا جاتا رہے، اور یہ کہ ہم در حقیقت تب مرتے ہیں جب ہم اپنے چاہنے والوں کی یادوں سے محو ہوجاتے ہیں، گویا ایک عظیم فنکار کبھی نہیں ملتا۔ جب تک اُس کی کتابیں پڑھاتی جاتی رہیں، اُس کی تصاویر سراہی جاتی رہیں، جب تک ہمارے گیت گائے جاتے رہیں، ہم میں سے ہر ایک ہمیشہ زندہ رہ سکتا ہے۔