معاشرے پر سائنس کے اثرات

ویکی اقتباس سے

معاشرے پر سائنس کے اثرات برٹرینڈ رسل (پیدائش:18 مئی 1872ء — وفات: 2 فروری 1970ء) کی کتاب ہے۔

اقتباسات[ترمیم]

  • یہ اعتراف کہ تمام انسان پیدائشی طور پر برابر نہیں ہیں، خطرناک صورت اُس وقت اختیار کرجاتا ہے جبکہ ایک گروہ کو اعلیٰ یا ادنیٰ قرار دے دیا جائے۔ اگر آپ یہ کہیں کہ امیر غریبوں کی نسبت زیادہ لائق ہوتے ہیں یا مرد عورتوں کی نسبت یا گورے کالوں کی نسبت یا جرمن دوسری کسی قوم کے لوگوں کی نسبت تو آپ ایسے نظرئیے کا اعلان کر رہے ہیں جس کی تائید ڈارونیت (ڈاروِن کا نظریہ) نہیں کرتی اور جو یقیناً غلامی یا جنگ کا پیش خیمہ ہے۔ مگر اِس قسم کے نظریات، چاہے وہ کتنے ہی ناروا ہی کیوں نہ ہوں، ڈارونیت سے منسوب کیے گئے ہیں۔ یہی حال اُس بے رحم نظرئیے کا ہے کہ غربا کو تباہی کی نذر کردیا جائے کیونکہ ترقی کے لیے قدرت کا قانون یہی ہے۔ اگر نسلوں کی اصلاح تنازع للبقا ہی کرسکتا ہے، جیسا کہ اِس نظرئیے کے پرستار کہتے ہیں تو ہمیں جنگوں کا استقبال کرنا چاہیے اور وہ جتنی تباہ کن ہوں، اُتنا ہی بہتر ہے۔ مگر پھیرہیرا قلیظوس (جو سب سے پہلا فاشسٹ تھا) کا بھی تو یہی مسلک ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ہومر کی خواہش کی دیوتاؤں اور انسانوں میں جنگ و جدل ختم ہوجائے، غلط تھی۔وہ نہیں جانتا تھا کہ وہ کائنات کی تباہی کے لیے دعا کر رہا ہے۔ جنگ سب کی میراث ہے اور جدل اِنصاف؛ جنگ سب کی جدِ امجد ہے اور سب کی شہنشاہ، اور اِس نے کسی کو دیوتا بنا دیا ہے اور کسی کو انسان، کسی کو غلام اور کسی کو آزاد۔
    • باب اول، سائنس اور روایت، صفحہ 24۔

حوالہ جات[ترمیم]