چانکیہ
Appearance
وِشنُو گُپت چانکیہ یا کَوٹَلیہ (پیدائش: 370 قبل مسیح – وفات: 283 قبل مسیح) چوتھی صدی قبل مسیح میں ہندوستان کا مشہور معَلَّم، مصنف اور چندرگپت موریہ کا اتالیق تھا۔ چانکیہ کی وجۂ شہرت اُس کی شاہکار تصنیف ارتھ شاستر ہے۔
اقتباسات
[ترمیم]ارتھ شاستر سے اقتباسات
[ترمیم]با ب 1
[ترمیم]- بے آزاری، سچائی، صفائی، بغض و بَیر سے یکسر بے تعلقی، ظلم سے پرہیز، عفو و در گذر‘ یہ سب (عوام) پر واجب ہیں۔
- با ب 1، صفحہ 23۔
- جو کوئی (حکمران) سخت تعزیریں (سزائیں) دے گا، خلق میں بدنام اور قابلِ نفرت ہوجائے گا اور جو ہلکی سزائیں دے گا، اُس کا مان (عزت) جاتا رہے گا اور بودا (بزدل، کمزور) سمجھا جائے گا۔لیکن جو کوئی واجبی اور قرار واقعی سزا دے گا تو اُس کی عزت کی جائے گی کیونکہ جب تعزیر (سزا) سے سوچ سمجھ کر مناسب طور پر کام لیا جائے تو لوگوں کو نیک چلنی اور مفید و باردَر کام سے لگے رہنے کی ترغیب ہوتی ہے۔
- با ب 1، صفحہ 24-25۔
- اگر تعزیر (سزا) کے اُصول کو بالکل برطرف (موقوف) رکھا جائے تو اُس سے افراتفری پیدا ہوتی ہے۔ حاکم مُنصِف موجود نہ ہو تو بقول معروف بڑی مچھلیاں چھوٹی مچھلیوں کو نگلنے لگتی ہیں۔ اُس(حکمران) کی موجودگی میں کمزور کا دِل مضبوط رہتا ہے۔
- با ب 1، صفحہ 25۔
- جو راجہ (حکمران) اچھی طرح پڑھا لکھا ہوگا اور علوم پر عبور رکھتا ہوگا، وہی رعایاء پر خوبی و تَندہی کے ساتھ حکومت کرے گا اور اُس (سلطنت) کا بھلا چاہے گا، وہی زمین (سلطنت) پر بے روک ٹوک قابض رہے گا۔
- با ب 1، صفحہ 25، جزو 5۔
- کان ، جِلد، نگاہ، زبان اور ناک کے ذریعے سماعت، لمس، رنگ اور بُو کے احساس سے بے پرواء ہوجانا، حواس پر قابو کہلاتا ہے۔ احکامِ حکمت کی پابندی کا یہی تقاضاء ہے ‘ کیونکہ تمام علوم کا مقصد یہی ہے کہ حواس پر قابو رکھا جائے۔ جو اِس کے خلاف جائے گا، جسے حواس پر قابو نہ ہوگا، جلد تباہ ہوجائے گا‘ چاہے تمام رُوئے زمین کا حاکم اور چار دانگِ عالم پر قابض کیوں نہ ہو۔
- با ب 1، صفحہ 27۔
کتابیات
[ترمیم]- آچاریہ چانکیہ: ارتھ شاستر، اُردو ترجمہ از شان الحق حقی۔ مطبوعہ قومی کونسل برائے فروغِ اُردو زبان، نئی دہلی، بھارت۔ 2010ء