صارف:Ali Kamrann

ویکی اقتباس سے

بات یہ ہے مبلّغانِ ادیان و مُصلحانِ اذہان نے جس خشتِ اول پر اپنے نظام کے قصور تعمیر فرمائے ہیں وہ خشتِ اول سائنس دانوں کی سی کرید اور کھرے سونے کی سی تحقیقی نیت کے باوجود اب تک میری گرفت میں نہیں آ سکی۔ اور یہی میرا دیانت دارانہ اعتراف ِ جہل ہے جس کو یاروں نے الحاد، عدوان اور ارتداد کا نام دے کر میرے خلاف ایک غوغا بلند کر رکھا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ میری عقل کا قصور ہو لیکن یار لوگ اس کو میری نیت کا فتور سمجھ بیٹھے ہیں۔ اور لطف یہ کہ جو لوگ مجھ سے برافروختہ ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ علت العلل یا مُحرک اول کے باب میں مجھ سے بھی زیادہ جاہل ہیں ۔۔۔۔۔۔ ان کو اپنے جہل کا علم نہیں اور اسی بنیاد پر وہ دین دار ہونے کے مدعی ہیں۔ کاش ان کو پتا ہوتا کہ ہمارا ایقان اس پیڑھی اور سیڑھی کے مثل ہے جس کو ہم نے والد مرحوم کے ترکے میں پایا ہے۔ ہمارا ایقان تحقیقی نہیں تقلیدی ہے۔ ہم حادثہ اتفاقی کے طور پر مسلمان کے گھر میں پیدا ہو گۓ ہیں اس لیے مسلمان ہیں۔ اگر یہودی کے گھر میں پیدا ہو جاتے تو ہم سے بڑا یہودی کوئ نہ ہوتا۔ اور ہمارے معتقدات کا پرفسوں محل ٹھوس کھوپڑی پر نہیں کھوکھلے کانوں پر تعمیر فرمایا گیا ہے۔ اب رہا علت العلل اور محرک اولّیں کا مسئلہ جس کو خدا بھگوان اللہ یہوا منروا یا گاڈ کے نام دیے گئے ہیں۔ جو تنزیہ کے دائرے میں نور یا ھو ہے لیکن تشبیہ کے میدان میں ایک مطلق العنان بادشاہ اور انسانوں کا سا مزاج رکھنے والا انتہائی طاقت ور شخص ہے ۔ سو یہ بحث اس قدر الجھی ہوئی ہے کہ اس کے واسطے اس کتاب میں گنجائش نہیں نکالی جا سکتی۔ بہرحال میں اقرار و انکار کے دو کروں کے بیچوں بیچ بیٹھا ہوا ہوں، نظام ِ سماوی کو دیکھتا ہوں تو کہیں کوئی خلا نظر نہیں آتا، دل اقرار کرنے لگتا ہے اور نظام ِ ارضی کو دیکھتا ہوں تو اس میں کروروں خلا نظر آتے ہیں۔ اور حیاتِ انسانی کی عبرت ناک بے ثباتی اور اس کی بے کراں درد مندیوں پر نگاہ کرتا ہوں تو دل انکار پر مُصر ہو جاتا ہے۔ نوعِ انسانی ابھی تک اس قدر ۔۔۔۔۔۔ جہل میں گرفتار ہے کہ ہم اپنی اس موجودہ ذہنی سطح پر بیٹھ کر نہ اقرار کر سکتے ہیں نہ انکار۔ اقرار یا انکار کا موقع اس وقت آۓ گا جب ہم ذرّے سے لے کر آفتاب تک کے علم پر حاوی ہو جانے کے بعد علت العلل کے ہر پہلو کو خوب ٹھونک بجا کر دیکھنے کے قابل ہو جائیں گے۔ میرا یہ خیال ہے کہ اس آخری منزل تک پہنچنے میں ابھی لاکھوں سال بیت جائیں گے اور میں اسی تذبذب کے عالم میں خالی ہات دنیا سے اٹھ جاؤں گا۔ لیکن مجھ کو یقینِ کامل ہے کہ لاکھوں یا کروروں برس کے بعد سہی مگر ایک دن ایسا ضرور آئے گا کہ نوعِ انسانی آخرکار روحِ کائنات کو اپنی مٹھی میں لے لے گی اور پوری کائنات پر فرماں روائ کرنے لگے گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


( ۔ یادوں کی برات ۔ جوش ملیح آبادی ۔ )