مشتاق احمد یوسفی

ویکی اقتباس سے

مشتاق احمد یوسفی (پیدائش: 4 ستمبر 1923ء – وفات: 20 جون 2018ء) پاکستان سے تعلق رکھنے والے اردو ادب کا مایہ ناز ادیب اور مزاح نگار تھے۔

اقتباسات[ترمیم]

شام شعر یاراں (2014ء)[ترمیم]

  • جو پنچھی پہلی بار گھونسلا چھوڑتا ہے‘ وہ ایک عجیب سے ناسٹلجیا میں مبتلاء ہوجاتا ہے۔ اُسے چھوڑا ہوا گھونسلا یاد تو بہت آتا ہے مگر وہ یہ بھی چاہتا ہے کہ وہ گھونسلا اب نئی زمین، نئی فضاؤں اور نئی ہواؤں میں اُسی درخت کو اُسی شاخ پر ٹنگا ہو! ہاں، چوگا اور چہچہے نئے ہوں تو کوئی مضائقہ نہیں۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 11-12۔
  • اگر آدمی کی اوسط عمر 70 برس فرض کرلی جائے تو جو رنج و محَن، مصائب و مظالم اور ذِلت و خواری وہ سَتَّر برس تک بھوگتا اور بھگتتا ہے ‘ و ہ چودہ گنا ہوجائے گی۔ آدمی گڑگڑا کے مرنے کی دعائین مانگے گا، مگر موت ہے کہ آ کے نہیں دے گی۔اِنتہاء یہ کہ ہمارا فیورٹ (پسندیدہ) بسنتی رنگ جھلس بُھلسا کے بھلبھلائے بینگن کا بُھرتا نظر آنے لگے گا ! ناں بابا، ناں۔ در گزرے ایسی زندگی سی۔ اللہ ہر شریف آدمی کو ایسے جالینوسی جہنم سے محفوظ رکھے۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 18۔
  • کچھ دوائیں کھانے سے پہلے اور کچھ کھانے کے بعد کھائی جاتی ہیں۔ لیکن سچ پوچھیے تو تقریر نہ قبل از غذاء اچھی، نہ بعد از غذاء۔ خلوئے معدہ تو گانا بھی اچھا نہیں لگتا۔ گانا ہی نہیں، خالی پیٹ تو حکومت کے خلاف ڈھنگ سے نعرہ بھی نہیں لگایا جاسکتا۔ ایسے ویسے خواب تک آنے بند ہوجاتے ہیں۔ مختصر یہ کہ خالی پیٹ صرف خون ٹیسٹ کرایا اور آپریشن کرایا جاسکتا ہے۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 35۔
  • میں اکثر کہتا ہوں کہ کسی عمر و امراض رسیدہ شخص یعنی میرے ہم عمر سے کبھی اُس کی طبیعت کا مفصل حال نہیں پوچھنا چاہیے۔ اِس لیے کہ اگر اُس نے اپنے جملہ امراض و عوارض گنوانے شروع کردئیے تو ایک گھنٹے میں بھی فہرست ختم نہیں ہوگی۔ دل میں جمع شدہ غُبَّار بھی جیسا نکلنا چاہیے، ویسا نہیں نکل پائے گا۔اگر وہ الحمدللہ کہہ دے تو اِسے اظہارِ عقیدہ سمجھنا چاہیے۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 36۔
  • پرانا مقدمہ باز آدھا وکیل ہوتا ہے اور دائم المرض آدمی پورا عطائی۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 37۔
  • آدمی کیسا ہی ہفت زبان ہو، گالی، گانے اور گنتی کے لیے اپنی مادری زبان ہی اِستعمال کرتا ہے۔ ہمارے بڑے بڑے ماہرین اقتصادیات اپنی رپورٹیں، مضامین اور خطبات انگریزی میں رقم فرماتے ہیں، لیکن میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اپنی تنخواہ کے نوٹ مادری زبان میں ہی گِنتے ہوں گے۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 38۔
  • سمجھدار آدمی نظر ہمیشہ نیچی اور نیت خراب رکھتا ہے۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 39۔
  • مرد کی آنکھ اور عورت کی زبان کا دم سب سے آخر میں نکلتا ہے۔
    • شام شعریاراں، صفحہ 39۔
  • زندگی میں اُداسیاں تمہارے سر پر منڈلاتی رہیں گی۔ اِن کو اپنے بالوں میں گھونسلا نہ بنانے دو۔
    • شام شعریاراں، صفحہ 40۔
  • آپ کو مشکل سے کوئی ایسا شخص ملے گا جسے بچپن میں ڈاکٹربننے اور دکھی انسانیت کی مفت خدمت کرنے کی تمنَّا نہ رہی ہو۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 40۔
  • جب تک ہم اپنے ممدوح کے سر پر تاجِ شاہانہ نہ رکھ دیں اور اُس کے ہاتھ پر بیعتِ محکومانہ نہ کرلیں، ہمارے جذبۂ عقیدت و اِرادت مندی کی تسکین نہیں ہوتی۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 40-41۔
  • اسلام کسی اور وسیلے سے پھیلایا نہ پھیلا ہو، طبلے اور سارنگی اور باجماعت تالیوں سے ہرگز نہیں پھیلا۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 42۔
  • ضمیر تو ہم ضرورت سے کہیں زیادہ بڑا رکھتے ہیں۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 42۔
  • میں ہومیوپیتھی کے خلاف نہیں۔ حق میں ہوں۔ میرا خیال ہے کہ جو امراض بغیر دواء کے بھی دور ہوجاتے ہیں، اُن کا ہومیوپیتھی سے بہتر کوئی علاج نہیں !۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 45۔
  • ہمارے ملک میں بے شمار مسائل ہیں۔ لیکن ہم کچھ اِتنے مجبور اور بے وسائل بھی نہیں۔ مسئلے کے صحیح Definition (بیان و توضیح) میں ہی اُس کے حل کے واضح اِشارے مل جاتے ہیں۔ ایک لمحے کے لیے اِس پہلو پر بھی ذرا غور کیجئے کہ ہر اِنسان کی طرح ہر قوم کو بھی اُس کے حوصلے اور سہار کے بقدر ہی آزمائش سے گزارا جاتا ہے۔ ہر مسئلہ ہمارے لیے ایک ذاتی اور اجتماعی چیلنج ہے۔ انسان کا ہر دکھ ہمیں اُس کے مداواء اور حسنِ سلوک کا موقع فراہم کرتا ہے۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 47۔
  • ایک زندہ، ذِمہ دار اور مہَّذ ب معاشرے کی یہ پہچان ہے کہ اگر وہ کسی کے دکھ درد کا مداواء نہیں کرسکتا تو اُس میں شریک ہوجاتا ہے۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 48۔
  • آدمی اُس وقت تک انسان اور اِنسان اُس وقت تک اشرف المخلوقات نہیں کہلایا جاسکتا ، جب تک وہ دوسروں کے دکھ نہ اَپنا لے۔
    • شام شعر یاراں، صفحہ 50۔

مزید دیکھیں[ترمیم]

ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں مشتاق احمد یوسفی.
  • مشتاق احمد یوسفی: شام شعر یاراں، مطبوعہ کراچی، 2014ء