پلوٹارک

ویکی اقتباس سے
پلو ٹارک

پلوٹارک، (50 تا 120 ق-م)۔ تاریخ نگاری کے بانیوں میں سے ایک، اس کی کتاب، "زندگیاں" (Lives)کو مارٹن سمتھ نے اپنی کتاب سو عظیم کتابیں میں جگہ دی ہے۔[1]

زندگیاں[ترمیم]

Moralia, 1531

اس دوران دارا کے جرنیلوں نے ایک بڑی فوج جمع کر کے اسے دریائے گرینیکس کے محاذ پر کھڑا کر دیا۔ اس طرح فارس میں داخلے کے لیے سکندر کو گویا دروازے پر ہی مقابلہ شروع کر دینا پڑا۔

مقدونی افسروں میں سے زیادہ تر دریا کی گہرائی کے بارے میں سن کر تشویش میں مبتلا ہو گئے تھے۔ ان کے سامنے یہ دشواری تھی کہ دریا عبور کرتے ہی غیرمسطّح اور دشوار گزار زمین تھی اور اس پر دشمن محاذ بنائے ہوئے پوری طرح چوکنا بیٹھا تھا۔ بعضوں کا خیال تھا کہ سکندر کو مقدونیہ کی روایات کا لحاظ کرتے ہوئے اس وقت جنگ نہیں کرنی چاہئیے کیونکہ اس مہینے میں مقدونوی بادشاہ جنگ نہیں کرتے تھے۔

سکندر نے ان باتوں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ پارمینیو نے اسے دریا عبور کرنے کی دشواریاں بتا کر قائل کرنا چاہا تو اس نے جواب دیا۔

’’اگر میں گرینیکس سے مرعوب ہو گیا تو درۂ دانیال کو شرمندہ ہونا پڑے گا۔‘‘

یہ کہتے ہی وہ دریا میں کود پڑا۔ سوار فوج کے تیرہ دستے بھی فوراً پانی میں اتر گئے۔ کسی سمجھدار سپہ سالار سے یہ توقع ہرگز نہ کی جا سکتی تھی بلکہ سکندر اس وقت کوئی ایسا پاگل انسان معلوم ہو رہا تھا جو خودکشی پر مائل ہو۔ صورتحال یہ تھی کہ گہرے دریا میں پانی کا بہاؤ اتنا تیز تھا کہ سپاہیوں کے قدم اکھڑ جاتے تھے۔ ستم بالائے ستم سامنے سے تیروں کی بوچھاڑ آ رہی تھی اور پھر سکندر اپنے ساتھیوں کو ان حالات میں جس ساحل پر لے جانا چاہتا تھا وہ نہ صرف چٹان کی طرح عمودی تھا بلکہ دشمن اس پر ایک مستحکم محاذ بنائے بیٹھا تھا۔

ان سب باتوں کے باوجود وہ آگے بڑھتا رہا اور خاصی جدوجہد کے بعد ساحل پر پہنچنے میں کامیاب ہو گیا جو نہ صرف عمودی تھا بلکہ وہاں پھسلن بھی تھی اور اس کی سطح کیچڑ کی تھی۔ یہاں پہنچ کر ایک دم بوکھلائے ہوئے دشمن سے دست بدست جنگ شروع ہو گئی۔ سکندر کو اتنی مہلت بھی نہ ملی کہ اپنے پیچھے آنے والے دستوں کو ترتیب دے سکتا۔ جوں ہی اس کے ساتھیوں نے ساحل پر قدم جمائے دشمن نے نعرے لگا کر ان پر حملہ کر دیا۔ وہ نیزوں سے لڑ رہے تھے اور نیزے ٹوٹ جاتے تو تلوار نکال لیتے۔

ان میں سے کئی سکندر پر حملہ آور ہو گئے کیونکہ اسے اس کی ڈھال اور خود کے دونوں جانب لگی ہوئی سفید کلغی کی وجہ سے باآسانی پہچانا جا سکتا تھا۔

فارسی فوج کے دو کماندار جن کے نام رہوسیسز اور سپتھریڈیٹس تھے سکندر پر چڑھ دوڑے(۱۴)۔ اس نے ایک کا وار خالی دے کر رہوسیسز کے سینے میں اپنا نیزہ بھونک دینا چاہا لیکن نیزے کی انّی دشمن کے سینہ بند سے ٹکرا کر ٹوٹ گئی۔ سکندر نے تلوار نکال لی۔ وہ رہوسیسز کا مقابلہ کر رہا تھا کہ سپتھریڈیٹس نے دوسری طرف سے پہنچ کر اپنا کلہاڑا پوری قوت کے ساتھ سکندر کے سر پر دے مارا۔ اس ضرب نے خود کو نقصان پہنچایا اور ایک کلغی بھی علیٰحدہ ہو گئی۔ لیکن جونہی اس نے دوسری ضرب کے لیے اپنا کلہاڑا بلند کیا سیاہ کلایٹس نے (جیسا کہ وہ کہلاتا تھا) سپتھریڈیٹس کو اپنے نیزے سے ہلاک کر دیا۔ اُسی لمحے سکندر بھی اپنے حریف کو ہلاک کر چکا تھا۔

مقدونوی سوار اس خطرناک اور خونی جنگ میں مصروف تھے کہ پیدل فوج نے بھی دریا عبور کر لیا اور دونوں جانب کی پیدل افواج بھی مقابلے میں شریک ہو گئیں ۔ تھوڑی دیر تک فارسیوں نے مقابلہ کیا لیکن پھر جلد ہی میدان چھوڑ کر بھاگ کھڑے ہوئے البتہ وہ تنخواہ دار یونانی جو دارا کی ملازمت میں اپنے ہموطنوں سے لڑ رہے تھے اپنی جگہ ڈٹے رہے۔ پھر انہوں نے ایک چٹان پر قبضہ کر لیا اور سکندر کو مقابلے کے لئے للکارا۔

سکندر جذبات سے مغلوب ہو گیا اور ان پر چڑھ دوڑا۔ اس وقت وہ بیوسیفالس پر سوار نہیں تھا بلکہ یہ کوئی اور گھوڑا تھا۔ دشمن نے اس کی پسلیوں میں تلوار ماردی اور یہ مارا گیا۔ مقدونویوں کو سب سے زیادہ نقصان جنگ کے اس حصے میں اٹھانا پڑا۔ ان کا مقابلہ ماہر پیشہ ور سپاہیوں سے تھا اور یہ مقابلہ دست بدست تھا۔ اس کے علاوہ دشمن فتح کی تمام امیدیں ہار بیٹھا تھا لہٰذا اب زندگی اور موت سے بے پروا ہو کر لڑ رہا تھا۔

فارسیوں کے بیس ہزار پیدل سپاہی اور ڈھائی ہزار سوار اس جنگ میں کام آئے جبکہ سکندر کی طرف سے کل چونتیس سپاہی کام آئے۔ یہ بیان ارسٹوبولوس کا ہے۔ سکندر نے حکم دیا کہ ان تمام لوگوں کے مجسمے بنائے جائیں ۔ یہ کام لِسّی پس نے انجام دیا۔

سکندر دوسری یونانی ریاستوں کو بھی اس فتح میں حصہ دار بنانا چاہتا تھا چنانچہ اس نے ایتھنز والوں کو مالِ غنیمت میں سے تین سو ڈھالیں بھجوائیں اور باقی تمام چیزوں پر اس نے یہ عبارت کندہ کروائی:

’’سکندر، پسرِ فیلقوس اور تمام یونانیوں نے، ماسوائے اسپارٹا کے، یہ مالِ غنیمت ان دشمنوں سے جنگ کر کے جیتا جو ایشیا میں رہتے ہیں ۔‘‘

جہاں تک برتنوں ، پردوں اور اس قسم کی دوسری چیزوں کا تعلق ہے تو ان میں سے چند کے سوا باقی تمام اس نے اپنی ماں کو بھجوا دیں ۔[2]

حوالہ جات[ترمیم]

  1. مارٹن سمتھ، سو عظیم کتابیں، صفحہ 116 تا 120
  2. پلوٹارک کی کتاب سوانحِ سکندر
ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں پلوٹارک.


مزید دیکھیے[ترمیم]