مندرجات کا رخ کریں

امراؤ جان ادا

ویکی اقتباس سے

امراؤ جان ادا مرزا محمد ہادی رسوا لکھنوی کا معرکۃ الآرا معاشرتی ناول ہے۔ جس میں انیس ویں صدی کے لکھنو کی سماجی اور ثقافتی جھلکیاں بڑے دلکش انداز میں دکھلائی گئی ہیں۔ لکھنو اُس زمانے میں موسیقی اور علم و ادب کا گہوارہ تھا۔ ناول کو اردو ادب میں ایک تاریخی حیثیت حاصل ہے۔

اقتباسات

[ترمیم]

صفحہ 121: نواب :- نہیں بسم اللہ جان اب مجھ کو جانے دو اب میرا آنا بے کار ہے جب خدا ہمارے دن پھیرے گا تو دیکھا جائے گا اور اب کیا دن پھریں گے۔ بسمﷲ : میں تو نہ جانے دوں گی۔ نواب:- تو کیا اپنی ماں سے جوتیاں کھلواؤگی۔ بسم ﷲ : (مجھ سے ) ہاں سچ تو ہے بہن امراو, آج یہ بڑی بی کو ہوا کیا تھا ؟ برسوں ہو گئے میرے کمرے میں آج تک جھانکی نہ تھی ۔ آج آئیں بھی تو قیامت برپا کر گئیں - بھئی اماں جان چاہے خفا ہو جائیں چاہے خوش ہوں میں نواب سے رسم نہیں ترک کر سکتی۔ آج نہیں ہے ان کے پاس نہ سہی۔ ایسی بھی کیا آنکھوں پر ٹھیکری رکھ لینا چاہیے ۔ آخر یہی نواب ہیں جن کی بدولت اماں جان نے ہزاروں روپئے پاے۔ آج زمانہ ان سے پھر گیا تو کیا ہم بھی توتے کی طرح ان سے آنکھیں پھیر لیں , گھر سے نکال دیں ؟ یہ ہرگز نہیں ہو سکتا۔ اب اگر اماں زیادہ تنگ کریں گی تو بہن امراو میں سچ کہتی ہوں , تواب کل ہاتھ پکڑ کے کسی طرف کو نکل جاؤں گی۔ لو میں نے اپنے دل کی بات کہ دی ۔ میں بسم اللہ کی باتیں بہت اچھی طرح سمجھ رہی تھی ۔ ہاں میں ہاں ملا رہی تھی ۔ بسم ﷲ :- اچھا تو نواب تم کہاں رہتے ہو ؟ نواب:- کہاں بتاؤں۔ بسم ﷲ :- آخر کہیں تو ؟ نواب:- تحسین گنج میں مخدوم بخش کے مکان پر رہتا ہوں ۔ افسوس! میں نہ جانتا تھا کہ مخدوم ایسا نمک حلال آدمی ہے ۔ سچ تو یہ ہے کہ میں اس سے بہت ہی شرمندہ ہوں۔

مزید دیکھیں

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]