سچل سرمست

ویکی اقتباس سے

سچل سرمست (پیدائش: 1739ء – وفات: 11 اپریل 1827ء) سندھ سے تعلق رکھنے والے صوفی شاعرتھے۔ سچل سرمست کی وجہ شہرت اُن کی سات زبانوں میں شاعری ہے، اِسی سبب سے سچل سرمست کو ’’شاعرِ ہفت زباں‘‘ کہتے ہیں۔

اقتباسات[ترمیم]

شاعری[ترمیم]

  • تو نے جس کو موجِ دریا سمجھا، وہ سب مہران ہیں[1]
    جو مقتل کی طرف جا رہے ہیں‘ یہ اُن کی معراج ہے۔
    • سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 83۔
  • اِس کثرت میں ’’سَچُو‘‘ سارا سچ ہے
    الف سے آدم ہوا، یہ سب ہنگامے اُس کے ہیں
    تم گمراہ نہ ہو، ہندو اور مومن وہی ہے، اُنہوں نے بنائے اور دیکھے، اُسی پر عمل کرو
    تم گلاب کا پھول بن جاؤ، بے شک تجھے منصور حلَّاج کی طرح مارتے رہیں۔
    • سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 84۔
  • خاموش رہوں تو مشرک کہلواؤں اور بولوں تو کافر ہوجاؤں
    اے سچے ڈنو! یہ راز کوئی سمجھ سکے؟۔[2]
    • سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 84۔
  • جو دکھ میں زندگی گذارتے ہیں، میں اُن کے پاس جانا چاہتا ہوں
    تاکہ تھوڑی دیر اُن کے پاس گذار کر دکھ کی خوشبو لے لوں۔
    • سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 85۔
  • جو دکھ میں زندگی بِیتاتے ہیں، اُن کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہیں
    کیونکہ اہلِ درد عشق کی نگری کے نواب ہیں
    • سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 85۔
  • دوئی[3] دورکرنے کا یہی وقت ہے
    جلد ہی مذہبی شدت اور تعصب اپنے دل سے دور کرو
    ہندو اور مومن ایک ہوکر آپس میں بھائی چارہ پیدا کرو
    کہیں دیر نہ ہوجائے اور سورج غروب ہوجائے اور تاریکی چھا جائے
    • سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، صفحہ 87۔

کتابیات[ترمیم]

  • صدیق طاہر: سرائیکی دیوان سچل سرمست، مطبوعہ پاکستان فاؤنڈیشن، لاہور، [[مئی 1978ء
  • محمد اسلم رسولپوری: منتخب سرائیکی کلام سچل سرمست، مطبوعہ بزمِ ثقافت، ملتان، 1977ء
  • ڈاکٹر نواز علی شوق: سچل سرمست، تاریخ ، تصوف اور شاعری، مطبوعہ سندھیکا اکیڈمی، کراچی (محکمہ ثقافت و سیاحت‘ حکومت سندھ)، ستمبر 2009ء

مزید دیکھیں[ترمیم]

ویکیپیڈیا میں اس مضمون کے لیے رجوع کریں سچل سرمست.
  1. دریائے سندھ کو مہران بھی کہتے ہیں۔
  2. ’’سچے ڈنو‘‘ سچلؔ سرمست کا سندھی تخلص ہے۔
  3. لغت میں ’’دوئی‘‘ کے متعدد معنی ہیں ،جیسے کہ:یکتائی یا وحدت کی ضد، شرکتِ غیرت، شریک کرنا، شریک ہونا، دوہرا پن۔